ماں جس کے پاوں تلے خدا نے جنت رکھ دی۔ انگلی پکڑ کر جو اولاد کو چلنا بولنا دنیا کو برتنا سکھاتی ہے۔ آج اس ماں کے لیئے دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ اپنی ماں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیئے تحفے تحائف اور دیگر طریقوں سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔
مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اِس دِن کو منانے کا آغاز امریکی خاتون انا جاروس نے انیس سو آٹھ میں کیا ۔ پاکستان میں بھی مدرز ڈے کی مناسبت سے بچے اپنی ماؤں کو تحفے اور پھول دیتے ہیں اور عظیم ہستی ماں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ماں کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی۔
دنیا بھرمیں ماؤں کا عالمی دن منانے کا مقصدمحبت کےخالص ترین رنگ لئے ماں کےمقدس رشتے کی عظمت اوراہمیت کواجاگر کرنا ہے ۔ ماں کوخدا نےاتنی شفقت اورمحبت کے ساتھ تخلیق کیا ہے کہ اس کائنات پراس کا کوئی نعم البدل ممکن ہی نہیں ہے۔ ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ خداوندکریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے
یاد رہے کہ ماﺅں کے عالمی دن منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا سب سے پہلے یونانی تہذیب میں سراغ ملتا ہے جہاں تمام دیوتاوں کی ماں ”گرہیا دیوی“ کے اعزاز میں یہ دن منایا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں ایسٹر سے 40 روز پہلے انگلستان میں ایک دن ”مدرنگ سنڈے“ کے نام سے موسوم تھا۔ امریکہ میں مدرز ڈے کا آغاز 1872ءمیں ہوا۔
سن 1907ءمیں فلاڈیفیا کی اینا جاروس نے اسے قومی دن کے طور پر منانے کی تحریک چلائی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور 1911ءمیں امریکہ کی ایک ریاست میں یہ دن منایا گیا۔
ان کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 ءکو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماوں کا دن قرار دیا، اب دنیا بھر میں سے ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس دن کے حوالے سے لوگ دوطبقوں میں تقسیم نظرآتے ہیں، ایک وہ جو اس دن کو ماﺅں کی عظمت کیلئے اہم قراردیتے ہیں، جبکہ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ ماﺅں سے محبت کیلئے ایک دن مختص کرنے کا کیا جواز، جبکہ ماںجیسی عظیم ہستی ہمیشہ محبت وتکریم کے لائق ہے۔
ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیںیہ یادرکھنا چاہئے کہ والدین ایک سائے کی طرح ہیں جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ سر پر موجود رہتا ہے، جونہی یہ سایہ اُٹھ جاتا ہے تب پتہ چلتاہے کہ ہم کیا کھو بیٹھے ہیں۔