قاہرہ (نیوز ڈیسک)قدیم مصر کا ذکر ہوتو ذہن میں صرف اہرام اور فرعونوں کا تصور ابھرتا ہے لیکن حال ہی میں سامنے آنے والے کچھ حیرتناک انکشافات سے پتا چلا ہے کہ قدیم دور کے مصر کی بہت سی اور بھی باتیں ہیں جن پر آج کے انسان کیلئے یقین کرنا بہت مشکل ہوگا۔ دی میٹرو کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو کے محقق ڈگلس جے بروور کا کہناے کہ ہزاروں سال قدیم مصر کے معاشرے میں جنسی اختلاط کی حیرت انگیز آزادی تھی۔ غیر شادی شدہ افراد جس سے چاہے تعلق استوار کرسکتے تھے البتہ شادی کے بعد تعلقات کو محدود کردیا جاتا تھا۔ اس معاشرے میں جسم فروشی بھی عام تھی۔ فرعونوں کے دربار سے وابستہ ایسی کئی خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جو جسم فروشی کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں۔چونکہ قدیم مصری معاشرے میں شادی کے بغیر جسمانی تعلقات کا رواج عام تھا لہٰذا انہیں مانع حمل طریقے ایجاد کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ مصری مانع حمل طریقوں کے موجد ہیں۔ تقریباً 2000 قبل مسیح کے مصر میں مانع حمل طریقوں کے استعمال کے واضح شواہد ملتے ہیں۔ اس دور میں مانع حمل گولیاں تو نہیں ہوتی تھیں البتہ اس کام کیلئے مگرمچھ کا فضلہ اور خمیر کیا ہوا آٹا استعمال کیا جاتا تھا۔ خواتین یہ اشیاءمکس کر کے استعمال کرتی تھیں۔ آج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آمیزے کی تیزابی خاصیت جنسی جرثوموں کو مارنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور یوں یہ کسی حد تک قدرتی مانع حمل دوا کا کام کرتا تھا۔

مصریوں نے ہزاروں سال قبل ہی بچے کی جنس کا قبل از پیدائش پتا چلانے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیا تھا۔ اس مقصد کے لئے حاملہ خاتون کچھ دن تک جو اور گندم کے بیجوں پر پیشاب کرتی تھی۔ اگر جو کے بیج پھوٹ پڑتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ لڑکا پیدا ہو گا اور اگر گندم کے بیج پھوٹتے تو اسے لڑکی پیدا ہونے کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اگر دونوں بیجوں میں پھوٹنے کا عمل نہ ہوتا تو اس کا مطلب یہ لیا جاتاتھا کہ خاتون حاملہ نہیں ہے۔
