وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے والد اور لڑکی کے ماموں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ملزمان نے دوران تفتیش لڑکی کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔

جمعرات کو پولیس کے پیش کرنے پر عدالت نے دونوں ملزمان سے تحقیقات کے لیے دس دن کاریمانڈ منظور کرلیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ 27 جنوری کی رات تقریباً 12 بجے کوئٹہ شہر میں گوالمنڈی تھانے کی حدود میں واقع بلوچی اسٹریٹ میں پیش آیا جہاں 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی حرا انوار کو گلی میں ان کے گھر کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

ایس ایچ او تھانہ گوالمنڈی بابر بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابتدائی طور پر لڑکی کے والد انوار الحق راجپوت نے تھانے میں قتل کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

بابر بلوچ کے مطابق یہ خاندان گزشتہ 27 سال سے امریکہ میں رہائش پذیر تھا اور حال ہی میں واپس کوئٹہ منتقل ہوا تھا۔

لڑکی کے والد نے شروع میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کوئٹہ میں مالی باغ کے علاقے میں واقعے اپنے سالے کے گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ان کی بیٹی کو ہلاک کردیا۔

پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے آلہ قتل (پستول)، موبائل فون اور موٹر سائیکل برآمد کر لی اورتحقیقات کا آغاز کردیا۔

حکام کے مطابق مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تھانہ گوالمنڈی پولیس نے یہ کیس “سنگین جرائم انویسٹی گیشن ونگ” کے حوالے کر دیا تھا۔

پولیس نےبتایا کہ دورانِ تفتیش پولیس کو لڑکی کے والد، ماموں اور خاندان کے دیگر افراد پر شک ہوا تو انہیں بھی گرفتار کر کے شامل تفتیش کرلیا گیا ۔

ونگ کی نگرانی کرنے والے ایس ایس پی کیپٹن (ر) زوہیب محسن نے وائس آفس امریکہ کو بتایا کہ اس سلسلے میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس کی تحقیقات کے دوران لڑکی کے والد اور ماموں نے قتل کا اعتراف کرلیا۔

“ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے اور لائف اسٹائل پر اعتراض تھا”

وائس آف امریکہ نے کوئٹہ میں لڑکی کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

تاہم اہل محلہ سے ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لڑکی کی والدہ اور دو بہنیں امریکہ میں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکی کے والد نے کوئٹہ کے علاقے بلوچی اسٹریٹ میں اپنا گھر فروخت کرنے کے لیے پراپرٹی ڈیلرز سے رابطہ کیا تھا

ادھر سنگین جرائم انوسٹی گیشن ونگ کے ایس ایس پی زوہیب محسن نے کہا ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اہل خانہ کو مقتولہ کے لباس، لائف اسٹائل اور سماجی میل جول پر اعتراض تھا۔

تفتیش کرنے والے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکی کے والد نے اپنے جرم کا اعتراف کرنے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی حرا انور امریکہ میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتی تھی اور انہیں اپنی بیٹی کے لائف اسٹائل پر اعتراض تھا۔

پولیس افسر کے مطابق باپ کو بیٹی کے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر اعتراض تھا اور انہوں نے متعدد بار بیٹی کو اس سے روکا بھی تھا لیکن جب بیٹی نے ان کی بات نہیں مانی تو باپ نے اسے پاکستان لاکر قتل کا منصوبہ بنایا۔

لڑکی کے موبائل فونز پولیس کے تحویل میں ہیں جن پر لاک لگے ہیں اس لیے تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مقتولہ کس اکاونٹ سے ٹک ٹاک پر موجود تھی۔

پولیس کی جانب سے لڑکی کے امریکی شہر ہونے سے متعلق تاحال کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی امریکی سفارت خانے سے تاحال کسی نے پولیس سے رابطہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے متعدد بار بذریعہ فون اور ای میل رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

ملزم انوار الحق اور ان کی بیٹی 15 جنوری کو پہلے نیو یارک سے لاہور اور پھر 22 جنوری کوئٹہ پہنچے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر کوئٹہ میں ہونے والا واقعہ غیرت کے نام پر قتل کی واردات معلوم ہوتی ہے اب بھی اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لے رہی ہیں۔