اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے زرینہ نے بتایا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائی کہ اچانک اس کے شوہر نے منگل کی رات اس کے کان کیوں کاٹ دیے؟ یہ واقعہ ازبکستان سے متصل افغان سرحدی صوبے بلخ کے ایک دور دراز ضلع میں رونما ہوا۔
زرینہ نے بتایا، ’’میرے شوہر نے مجھے رات تین بجے نیند سے جگایا اور میری ٹانگیں اور ہاتھ باندھ دیے۔ میں اس کی منت سماجت کرتی رہی کہ مجھے چھوڑ دے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔‘‘
زرینہ کے بقول اس کے شوہر نے اسے مکے مارے اور بعد ازاں تیز دھار چاقو سے اس کے دونوں کان کاٹ دیے اور فرار ہو گیا۔ زرینہ بعد ازاں گھر میں اکیلی پڑی رہی اور صبح اس کے ہمسایوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس کے رشتہ داروں کو خبر کی۔ تمام رات کی تکلیف کے بعد اگلے دن زرینہ کے رشتہ داروں نے اسے بلخ صوبے کے دارالحکومت مزار شریف کے ایک ہسپتال منتقل کیا۔
مزار شریف میں ہسپتال کے ڈاکٹر شافر شائق نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اسے (زرینہ کو) صبح ساڑھے نو بجے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔ تصور کیجیے کہ رات بھر اس کا کتنا خون بہہ گیا ہو گا۔‘‘
زرینہ کے مطابق وہ حیران ہے کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا کیونکہ وہ تو ہمیشہ ہی اس کے حکم کی تابع رہی تھی اور اپنے شوہر کی اجازت نہ ملنے پر اپنی ماں سے ملنے بھی نہ جاتی تھی، ’’میرا شوہر بہت زیادہ سخت ہے، جب اسے غصہ آتا ہے تو وہ سبھی کو مارنے پیٹنے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ماں باپ کا بھی خیال نہیں کرتا۔‘‘صوبہ بلخ کے گورنر کے ترجمان جان درانی نے بتایا ہے کہ ملزم کی تلاش جاری ہے۔ اس واقعے کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے۔ بلخ میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکن فہیمہ رحیمی نے کہا ہے کہ اس قدامت پسند معاشرے میں مردوں کی طرف سے خواتین کے خلاف یہ ایک اور حملہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کابل حکومت کو اس حوالے سے فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ممکن ہو سکے۔
