شمالی جکارتہ میں آباد ایک سماجی گروپ کے عہدے دار گوگم محمد کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر کنوؤں کی حالت خراب ہے۔ لیکن ہمارے علاقے کے کنوئیں بہتر حالت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقے کے اکثر لوگ اپنی ر وزمرہ کی ضروريات پوری کرنے کے لیے ان کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
لیکن اس کے نتیجے میں جکارتہ ہر سال 7.6 سینٹی میٹر دھنس رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کے اس شہر میں لوگوں کو اپنے استعمال کے لیے زمین کے نیچے سے پانی نکالنے سے روکنا مشکل ہے۔
جکارتہ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے شروع کیے جانے والے مربوط منصوبے کو انڈونیشیا کے مقدس تصوراتي پرندے ’ گاروڈا‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سمندر کے کنارے 24 کلومیٹر لمبی دیوار اور جکارتہ کے شمالی ساحلی علاقے کے گرد 17 مصنوعی جزیرے تعمیر کیے جائیں گے۔
ساحلی علاقے پر موجود پرانی دیوار تقربیاً 25 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے زمین میں دھنس رہی ہے۔ اسی طرح مشہور شہر وینس اندازً 38 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے زمین میں دھنستا جا رہا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عمارتوں اور دیواروں اور دیگر تعمیرات کے زمین میں دھنسنے کی وجہ ان علاقوں کا سیم زدہ ہونا ہے۔
جکارتہ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے دیوار کے تعمیری منصوبے میں انڈونیشیا، نیدرلینڈز اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ لیکن ملک میں جاری سیاسی تناؤ سے یہ منصوبہ متاثر ہو رہا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشوں کے ہر موسم کے بعد دیوار کی تعمیر کی ضرورت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
سن 2006 میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جکارتہ کی میونسپل انتظامیہ لوگوں کو ان کی ضرورت کا پانی مہیا نہیں کر پا رہی جس کے باعث لوگ اپنی ضرورت کا 75 فی صد پانی غیر قانونی کنووں سے پوری کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد شمالی جکارتہ کی غریب آبادیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جو تیزی سے زمین میں دھنس رہا ہے۔
