چینی حکومت نے شورش زدہ صوبے سنکیانگ میں مسلمان مردوں کے داڑھی رکھنے اور خواتین کے برقعے پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بیجنگ حکومت نے اس پابندی کا فیصلہ اپنی انسدادِ انتہا پسندی کی پالیسی کے تناظر میں کیا ہے۔چینی حکومت کی جانب سے برقعے 555555555555555555511پہننے اور داڑھی رکھنے کی پابندی کا اطلاق پہلی اپریل سے ہو گا۔ اسی طرح چینی حکومت نے انتہا پسند عقائد کے فروغ اور انہیں پھیلانے کو بھی خلاف ضابطہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی وژن پر حکومتی پالیسیوں کے بارے میں پیش کیے جانے والے پراپیگنڈے کو سننے یا دیکھنے سے انکار بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔بیجنگ کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ضابطوں کے تحت بچوں کو نیشنل تعلیمی پروگرام سے دور رکھنے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔ ان حکومتی پابندیوں کا متن صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی  ویب سائٹس پر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

قبل ازیں چینی حکومت نے ایغور نسل کے لوگوں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ نماز کی ادائیگی کو گھروں تک محدود کیا جا چکا ہے۔ بچوں کے لیے مذہبی تعلیم منع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ماہِ رمضان کے دوران روزے رکھنا بھی خلافِ قانون قرار دیا جا چکا ہے۔55555555555555555555555555555522

انسانی حقوق کے اداروں نے ان پابندیوں کو ایغور نسل کے بنیادی حقوق کے منافی قرار دے رکھا ہے۔ چینی موقف یہ ہے کہ ایغور نسل کے علیحدگی پسندوں نے چین میں کئی پرتشدد حملے کیے ہیں اور ان میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ چینی موقف کے حوالے سے بعض بین الاقوامی حلقوں کا خیال ہے کہ چین ایغور افراد پر پابندیوں کے نفاذ کے سلسلے میں معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کر رہا ہے۔

چینی حکومت کوصوبے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں میں پاسی جانے والی انتہا پسندی سے پریشانی لاحق ہے۔ اس باعث بیجنگ حکومت ایغور نسل کے مسلمانوں کو مختلف پابندیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایغور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ چینی حکومت اُن کے مذہب، زبان اور ثقافت کو جابرانہ اور امتیازی پالیسیوں سے مٹانے کی کوشش میں ہے۔