بھارت میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس کرنن کی دماغی حالت چیک کروانے کا حکم دیا ہے۔ دوسری جانب جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کے سات ججوں کی دماغی صحت پر سوالات اٹھائے ہیں۔سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس چنا سوامی اور کلکتہ ہائی کورٹ کے جج سوامی ناتھن کرنن کے درمیان توہین عدالت کے معاملے میں پچھلے کئی ماہ سے ایک قانونی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس نے اب ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر کی صدارت والے سات رکنی بینچ نے صوبہ مغربی بنگال کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کو حکم دیا کہ وہ جسٹس کرنن کی دماغی حالت کا معائنہ کرنے کے لئے ڈاکٹروں کا ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیں۔ عدالت عظمیٰ نے صوبائی ڈائریکٹر جنرل پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کروانے کے لئے پولیس کا ضروری بندوبست کریں اور معائنہ رپورٹ آٹھ مئی تک عدالت عظمیٰ میں پیش کی جائے، جس پر عدالت نو مئی کو سماعت کرے گی۔تاہم سپریم کورٹ کے اس حکم پر جسٹس کرنن نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،’’یہ غلط،مضحکہ خیز اور قانوناً ناشائستہ ہے۔ یہ حکم مجھے ہراساں کرنے کے لئے دیا گیا ہے اور یہ میرے وقار کے منافی ہے۔ یہ ایک بے گناہ اور(پسماندہ ذات ) دلت کی توہین ہے۔ لہذا میں سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔‘‘جسٹس کرنن کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ڈائریکٹر جنرل پولیس نے میری مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو میں اسے برخاست کرنے کا حکم سنا دوں گا۔ ‘‘جسٹس کرنن نے ایک قدم آگے بڑھ کر دہلی کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے مذکورہ بینچ کے ساتوں ججوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرائیں۔دراصل یہ معاملہ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا، جب جسٹس کرنن نے وزیر اعظم کے دفتر کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط بھیجا، جس میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تقریباً بیس ججوں کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس خط کے بعد سپریم کورٹ نے جسٹس کرنن کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ درج کرلیا۔ عدالت عظمیٰ نے ملک کی تمام عدالتوں‘ ٹریبونل اورکمیشنوں کو یہ ہدایت جاری کہ جسٹس کرنن کے جاری کردہ کسی بھی حکم کو قابل عمل نہ سمجھا جائے
Entertainment, News, Uncategorized
