– تحریر: عمار مسعود
امریکہ دنیا کے سامنے اپنا ’اسلحہ‘ بیچتا ہے۔ جاپان ہر فورم پر اپنی ’گاڑیوں‘ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔
آسٹریلیا ’لائیو سٹاک اور ایگری کلچر‘ پر نازاں ہے۔ جرمنی دنیا کی سب سے بہتر ’انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ سعودی عرب ’تیل‘ بیچتا ہے۔ ہانگ کانگ اپنی ’فنانشل سروسز‘ کے اشتہار لگاتا ہے۔ انڈیا ’آئی ٹی‘ سیکٹر میں چمپیئن ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ تھائی لینڈ ’سیاحت کے فروغ‘ کو مارکیٹ کرتا ہے۔
ہالینڈ اپنے ہاں کے ’ٹیولپس کے پھولوں‘ کو دنیا میں سب سے بہتر بتاتا ہے۔ بلیجیئم اپنی ’چاکلیٹ‘ پر فخر کرتا ہے۔ فرانس ’پرفیوم‘ کی انڈسٹری کا سرپنچ بنتا ہے۔ سنگاپور اپنی ’ویلیو ایڈڈ سروسز‘ کے بہترین ہونے کا نعرہ لگاتا ہے۔ افریقہ اپنے ’جنگلات، جنگلی حیات اور افریقن سفاری‘ کی اہمیت دنیا کے سامنے اجاگر کرتا ہے۔ حتیٰ کی بنگلہ دیش بھی اپنے ’چاول اور پٹ سن‘ کے قصیدے گاتا ہے۔
چین اپنے ہاں کی سب سے معیاری اور ارزاں پروڈکٹس کے گن گاتا ہے۔ عموماً ان ممالک کے سربراہان بہانے بہانے سے اپنے ملک کی پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
فورم کوئی بھی ہو وہ بات سے بات نکالنے کے انداز میں کچھ نہ کچھ بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ چاہے اقوام متحدہ کا اجلاس ہو یا سلامتی کونسل میں کسی قرارداد پر بات، سارک ممالک کی کانفرنس ہو یا پھر اسلامی ممالک کا سمٹ، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں یا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشنز کی ملاقات، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہو یا گلف ٹریڈ کارپوریشن کی کوئی میٹنگ، ورلڈ اکنامک فورم کی کوئی کارروائی ہو یا کسی اور اہم موقع کی کوئی ہنگامی میٹنگ، یورپیئن ممالک کے ٹریڈنگ بلاک سے خطاب ہو یا افریقی ممالک کی تجارتی انجمن کا اعلامیہ۔
ہر ملک کا سربراہ دنیا میں کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہوتا ہے، جبکہ باقی حکومتی عہدیدار بھی اپنے ملک کی مصنوعات یا خدمات کی پبلسٹی کر رہے ہوتے ہیں۔

میرا علم ناقص ہے لیکن جب سے میں نے اس ملک میں ہوش سنبھالا ہے میں نے کئی سربراہانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بین الاقوامی فورمز پر تقاریر سنی ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے ذکر کیا ہو کہ ہمارے ہاں کی گندم ایسی لاجواب ہے کہ دانہ دانہ لذت سے بھرا ہے۔
یا پھر کسی نے کہا ہو کہ ہماری کپاس چاندی کو مات دیتی ہے۔ یا پھر کسی نے اپنے ہاں کی چمڑے کی صنعت کبھی مارکیٹ کی ہو، یا پھراپنے کسی وزیر اعظم یا صدر نے ہمارے ہاں کی سٹیل کی مصنوعات کی تعریف کسی بین الا قوامی فورم پر کی ہو، یا پھر کسی نے کہا ہو کہ ہمارے ہاں تعلیم کا ایسا نظام ہے کہ دنیا بھر کے طلبا اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیےاس مملکت خداداد کا سفر اختیارکرتے ہیں، یا پھر کسی وزیر اعظم یا صدر نے ہماری صحت کی سہولیات کا ذکر کسی انٹرنشل سیمنار میں کیا ہو، یا پھر سرکاری سطح پر ہمارے ہاں کے چاول کبھی دنیا میں مارکیٹ کیے گئے ہوں۔
ہاں البتہ چند سربراہانِ مملکت نے اپنی تقاریر میں شمالی علاقہ جات کے حسن کا ذکر ضرور کیا، سیاحت کو فروغ دینے کی دبی دبی بات ضرور کی مگر جب ان علاقوں میں آنے والے سیاح آئے روز اغوا برائے تاوان کے لیے غائب ہونے لگے تو یہ بات بھی رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔



😢
LikeLike