
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایک اور شرط پوری کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے ۔
پیر کو قومی اسمبلی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیے گئے ترمیمی بل کو مزید غور کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے ۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی فراہمی کے لیے گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔
آئی ایم ایف کی اس شرط کا مقصد سرکاری افسران کو اپنے عہدوں کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال سے روکنا ،بدعنوانی کو کم کرنا، شفافیت اور گڈگورننس بتایا گیا ہے۔
سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کے مذکورہ بل کی منظوری وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت 12 فروری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی تھی ۔
پاکستان میں کرپشن اور گورننس کے نظام میں خامیوں کی نشاندہی ملکی اور غیر ملکی رپورٹس میں کی جاتی رہی ہے ۔
آئی ایم ایف کی جانب سے موجودہ حکومت کو قرض کی فراہمی کے وقت شرائط میں بھی ان مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کئی شرائط طے کی گئی تھیں۔
ڈیجیٹل طور پر جمع کرائے گئے یہ اثاثہ جات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رسائی میں ہوں گے۔ ڈیٹا کے تحفظ اور ذاتی معلومات بشمول شناختی کارڈ نمبر، رہائشی ایڈریس، بینک اکاؤنٹ یا بانڈ نمبرز کی رازداری کا تحفظ کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون نے بل پیش کرنے کے بعد قومی اسمبلی کو بتایا کہ شفافیت کے لیے اس ترمیمی بل کے تحت گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کے اثاثہ جات ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں گے ۔
گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے کتنے افسران ہیں؟
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق پاکستان میں گریڈ 17 سے 22 تک کے سول افسران کی مجموعی تعداد 84 ہزار 489 ہے جس میں وفاقی وزارتوں ، ماتحت محکموں اور آئینی اداروں میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے ملازمین کی تعداد 27ہزار 11 ہے۔
خودمختار، نیم خودمختار اداروں اور کارپوریشنز میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے 57 ہزار 478 افسران شامل ہیں ۔ ان افسران میں سب سے زیادہ تعداد گریڈ 17 کے افسران کا ہے ۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کا بل سول سرونٹ کی تعریف پر پورا اُترنے والے ملازمین پر لاگو ہو گا۔
اُن کے بقول افواجِ پاکستان، اتھارٹیز، اسٹیٹ بینک اور اپنے قواعد کے تحت چلنے والے اداروں پر یہ لاگو نہیں ہو گا۔
ایک سابق وفاقی سیکریٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ساٹھ کی دہائی سے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع کرائی جاتی رہی ہیں۔ تاہم پہلے اثاثہ جات عام نہیں کیے جاتے تھے۔ اب پیش کردہ ترمیمی بل کے تحت یہ پبلک ہوں گے۔
کابینہ ڈویژن کے ایک سابق وفاقی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ “میرے نزدیک اس ترمیم کا فائدہ ہو گا۔سرکاری افسران کی آمدنی، اخراجات اور اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئیں گی تو ان کے بچوں کی تعلیم، اخراجات سے لے کر ان کے لائف اسٹائل کا جائزہ بھی لیا جا سکے گا۔”
اُن کے بقول جن افسران نے اپنے اہلِ خانہ کے نام پر اثاثے بنا رکھے ہیں، وہ اس ترمیم سے پریشان ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سول افسران کے اثاثہ جات منظر پر آنے کے بعد رہ جانے والے فوج، عدلیہ، اتھارٹیز کے ملازمین کے اثاثہ جات جمع اور ان کو پبلک کرنے کے حوالے سے دباؤ بڑھے گا۔
