سائنس دانوں نے ایک ایسا سینسر تیار کیا ہے جو انسانی جلد پر موجود پسینے کے تجزیے سے ہی خون میں شوگرbbc کی مقدار کا پتہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سینسر کو اس تشخیص کے لیے پسینے کے چند قطرے ہی کافی ہوتے ہیں۔ عام طور پر ذیابیطس کے مریضوں کی جانچ کے لیے ان کے خون کا ایک قطرہ نکالا جاتا ہے اور جنوبی کوریا کی سیول یونیورسٹی میں سائنس دان اس تکلیف دہ عمل سے بچنے کا طریقہ تلاش کر رہے تھے۔ تاہم سائنسدانوں کو اس سینسر کو قابل عمل بنانے کے لیے بہت سے چيلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پسینے میں خون کے مقابلے میں شوگر کے مادے کافی کم ہوتے ہیں اس لیے شوگر کی مقدار پتہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں لیکٹک ایسڈ سمیت کئی دیگر کیمیائی اجزا بھی ہوتے ہیں جس سے شوگر کا تعین قدر مشکل ہوجاتا ہے۔ تو اس آلے میں شوگر کی مقدار جاننے کے لیے تین سینسر موجود ہیں جبکہ چوتھا سینسر پسینے کی تیزابیت کے تجزیے کے لیے ہے۔ یہ سب ایک سوراخ دار پرت میں نصب ہوتے ہیں جو پسینے کو آ‎سانی سے برقی تاروں کو بھگونے میں مدد دیتی ہے۔ پھر یہ تمام معلومات ایک دستی کمپیوٹر کو بھیج دی جاتی ہیں جو شوگر کی سطح کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس سینسر سے متعلق نئی معلومات سائنس کے جریدے ‘ایڈوانس سائنس’ میں شائع ہوئی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ‘یہ نظام ذیابیطس کے مریضوں کی بغیر تکلیف اور تناؤ کے دیکھ بھال کے لیے اہم اور جدید پیش رفت ہے۔’ ابھی اس سینسر کا استعمال کافی پیچیدہ ہے اور محققین کو ابھی اس پر کافی کام کرنا ہے کا آیا اسے عام استعمال کے لائق کیسے بنایا جائے۔ خیال رہے کہ ذیابیطس کی دو اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس جسم کے دفاعی نظام کے ان اعضا پر اثر انداز ہونے سے ہوتی ہے جو بلڈ شوگر کی شرح کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ٹائپ دو ذیابیطس کی وجہ مخصوص انسانی طرزِ زندگی ہے جس کی وجہ سے جسم کی خون میں شوگر کی مقدار کنٹرل کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرنے کے لیے دوا یا انسولین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔