صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس گلزار احمد سے سپریم کورٹ کے 27ویں چیف جسٹس کا حلف لے لیا ہے۔ جسٹس گلزار کی بطور چیف جسٹس مدت یکم فروری 2022 تک ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ دو فروری سنہ 1957 میں ایڈووکیٹ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گلستان سکول سے حاصل کرنے کے بعد ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور سنہ 1986 میں ہائی کورٹ کے وکیل رجسٹر ہوئے اور دو برس بعد ہی ان کی سپریم کورٹ میں انرولمنٹ ہو گئی۔
جسٹس گلزار احمد سولِ کارپوریٹ شعبے کے وکیل رہے ہیں اور وہ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور بینکوں کے قانونی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد جب سنہ 2002 میں ہائی کورٹ کے جج بنے تو دو سال قبل ہی جنرل پرویز مشرف کے جاری کیے گئے عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اکثر جج صاحبان حلف اٹھا چکے تھے۔
صرف پانچ سال کے بعد یعنی سنہ 2007 میں انھیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب دوبارہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے کا حکم آیا تاہم وہ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد کے ساتھ ان ججوں میں شامل رہے جنھوں نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد جب سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ان ججوں میں شامل تھے جو دوسرے مرحلے میں بحال ہوئے۔
سنہ 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج تعینات کیے گئے۔ اس وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے۔
صحافی اور تجزیہ نگار مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کا حکم اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت پر نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے چیف جسٹس گلزار ہی کے پاس آنی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا ’یہ چیف جسٹس شپ پاکستان کے سیاسی اور سول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں ایک بڑا اہم موڑ ہو سکتی ہے۔‘
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع اور پرویز مشرف کو پھانسی کا معاملہ بہت سنجیدہ معاملات ہیں جن کو آگے لے کر چلنا ہے اور آنے والا وقت مشکل ہے۔
لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے دیے ہیں اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر معاملات کو آگے لے کر جایا گیا ہے۔
